Sunday, November 17, 2013

دکنی نظم میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا


مہتاب قدر

میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا
 کیوں اپنا پٹارا کھولا تھا
 ہاں عمر کا انکی  اندازہ
     چالیس تلک بھی سولا تھا
بارش میں بھگے تو راز کھلا
ماشہ وہ نہیں تھا تولا تھا
میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا

کب امّاں کو اماں سمجھے تھے
 کب باوا کو باوابولے تھے
دنیامیں میں انہی کی اک جورو
بس حور پری ہے سوچے تھے
اب بیٹا غٹرغوں کرتاہے
اور منہ پہ اکڑفوں کرتا ہے
تب کائیکو دکھوں کے یہ تڑکاں
میں پہلے کا پہلیج بولا تھا

آزاد ویزا کے چکر میں
مت آو کہا تھا سالوں کو
آتی ہے سمجھ میں جلدی کب
ہر بات یہ مستی پالوں کو
اب آ کو یہاں پر پھنس گئیں ناں
میں پہلے کا پہلیج بولا تھا

نکو یہ گلابی لاڑاں بھی
مہتاب ٹپیکل باتاں بھی
کیوں چھوڑ کے اپنے لہجے کو
تم شعر سناریں گا گا کو
کچھ داد ملی نہ ریّالاں،
اب تھی سوبھی عزت جاری ناں
تم بات کسی کی سنتیں کاں
،میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا

Sunday, August 18, 2013

اب مشاعرے یوں ہونے لگے



اب مشاعرے یوں ہونے لگے

مہتاب قدر



مشاعرے جو کبھی تہذیب گاہ ہوا کرتے تھے وقت اور حالات کے ساتھ اپنی اصل ہیئت
کھوتے جارہے ہیں۔عالمی مشاعروں کا ایسا رواج بڑھا کے اب ہندوستان و پاکستان کے
علاوہ یورپ امریکہ اور خلیجی ملکوں میں عالمی مشاعرے اور آے دن ایوارڈز کی
تقسیم ہمارے آج کے شعراٗ کی ہمت افزائی کے علاوہ ان کے ذرایع آمدنی کا بھی
اچھا خاصا سبب بن گئی ہے،خیر! اس میں کوئی برائی بھی نہیں
۔



ایک بین الاقوامی شاعر نے جوکئی برس پہلے مشاعرہ پڑھنے جدہ تشریف لائے تھے ،ان
کی عارضی قیامگاہ پر ہماری ملاقات کے دوران جب مشاعروں میں ہونے والی نو
ٹونکیوں کا ذکر آیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ اب مشاعرے ہماری تہذیب کی علامت
نہیں رہے بلکہ تہذیب کا جشن بن گئے ہیں ، یہاں موصوف نے ’’تکلف‘‘ سے کا م لیا
ورنہ ہمارے تجربے اور مشاہدے میں تو مشاعرے بدتہذیبی کا موثر اظہار بن گئے
ہیں۔مشاعروں میں بڑے اور چھوٹے کا معیار شاعری کی قد وقامت سے نہیں بلکہ شاعر
کی شہرت اور اس کے ترنم یا چیخ پکار کی مہارت سے ناپا جانے لگاہے۔اداکاری اور
بھیک منگا پن شاعری پر غالب آگئے ہیں جو فنکار اِس فن سے واقف نہیں وہ عالمی
مشاعروں کا کامیاب شاعر نہیں بن سکتا۔ "حضرات دعاؤں سے نواز دی جیئے" ، کوئی
کہتا ہے" آپ کو اپنے بچوں کی قسم داد دیتے جائیے "۔ کوئی چیخ چیخ کر آسما ن
سرپر اُٹھا لیتا ہے اور یہ کہہ کر سامعین کی سماعتوں کی توہین کیے جا رہا ہے،
کہ " داد دیجئے شعر گھر جاکر سمجھ لینا "۔۔۔واہ واہ سامعین کے دل گردے کی داد
دینی پڑتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں جو انکے ذوقِ سماعت کا
اس طرح انکے منہ پر مذاق اُڑاتے ہیں۔
حضرات ! غزل اپنے دامن میں بڑی وسعت رکھتی ہے اب غزل صرف محبوب سے بات کرنے کا
نام نہ رہی بلکہ زندگی کے تمام معاشرتی ، سماجی اور سیاسی مسائل نے اس میں سج
کرغزل کو دھنک رنگ بنا دیا ہے ا اور یہی غزل کی زندگی اور آفاقیت کی علامت ہے
مگر بعض شعرا ء نے ماں کے تقدس کو استعمال کرکے داد بٹورنے کا ذریعہ بنایا ،
چاہے انہوں نے اپنی ماؤں کے ساتھ جیسا بھی رویّہ برتا ہو ،ہر شاعر ماں پر شعر
سناے بغیر نہیں رہتا اُسے معلوم ہے کہ کسی شعر پر داد ملے نہ ملے اس موضوع پر
ضرور ملے گی،غزل میں وہ ماں کاذکر ایسے متاثر کن انداز میں کرتا ہے کہ لوگ داد
دینے پر مجبور ہو جائیں۔ سیاسی اورسماجی موضوعات پر عام سامع کے جذبات سے
کھیلنے والے یہ شاعر اپنی آئیندہ مشاعروں کی دعوت کی ضمانت پکی کر جاتے ہیں
جنہیں بھولی بھالی عوام جو مشاعروں میں اپنا وقت گزا رنے اور تفریح کرنے آتی
ہے داد و تحسین بلکہ تالیوں سے جو مشاعروں کی تہذیب کے مغائر ہے نوازتی رہتی
ہے۔یقیناًایسے سامعین کی تعداد مشاعروں میں اچھی خاصی ہوتی ہے جنہیں مشاعروں
کی روایات کا علم نہیں یا وہ داد دینے کے ڈھنگ سے واقف نہیں ہوتے ،یہ نام نہاد
بڑے شعراء نازک اور حساس قومی اور مذہبی موضوعات پر بڑی چابک دستی اور چالاکی
سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایسے شعر سنا تے ہیں کہ سیدھے سادے سامعین کے جذبات
اور احساسات میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہو جائے اور انہیں بار بار
شعرپڑھنے کی دعوت دی جاتی رہے۔
حالیہ مشاہدے کے مطابق ایک ستر سالہ بڑے شاعر نے جو نظامت بھی فرماتے ہیں بلکہ
فرمارہے تھے ،اپنے لباس اور نازو انداز سے جواں سال نظرآنے والی شاعر ہ کو
مخاطب کرکے فرمایا ، تیری آنکھوں میں اُترنا چاہتا ہوں ۔۔۔اب میں حد سے گزرنا
چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔(انہی الفاظ پر مشتمل شعر تھا جو مجھے کوفت کے باعث یاد نہ
رہا)، اگروہ براہ راست شاعرہ سے مخاطب نہ ہوتے یا اس کا ذکر نہ کرتے کہ یہ
میری دوست ہیں یہ شعر انکی نذر کر رہا ہوں تو شاید شعر سنے جا سکتے تھے مگر
ایسا نہیں تھا مخاطب کا تعین کرکے ایسا کہنا۔۔ اُف!! خواتین کی موجود گی میں
اتنی بدتمیزی شاید اپنے ملکوں میں روا رکھی جاتی ہو مگر ان شہروں میں لوگ اپنی
گھروالیوں اور بیٹیوں کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں، ان کے احساسات پر
کیا گزرتی ہوگی اور ایک شاعر کا کیا تصور ان کے ذہنوں میں جگہ لیتا ہوگا جبکہ
انہیں ایک جواں سال نہیں عمر رسیدہ شاعر سے یہ کلمات سننے کو ملتے ہوں۔ابھی گل
و بلبل اور لب و رخسار کی روایتی شاعری نے دم نہیں توڑااب بھی ہماری روایات
زندہ ہیں، مگر بولنے کے بھی انداز ہوتے ہیں ، کب ،کہاں اور کیسے بولا جائے اس
کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ خصوصا جن مشاعروں میں خواتین شریک ہوں جہاں ہماری
بیٹیاں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان ڈھونڈنے آجائیں اگر وہاں بھی فلمی انداز کے
مکالمے ہوں تو انہیں مشاعروں میں آنے کے بجائے ایک ویڈیو یا "ہا و ہو " والے
چینل پر کچھ دیکھ لینے میں کیا قباحت نظر آسکتی ہے۔ گروپ بندیوں کا شکار یہ
ناظمینِ مشاعرہ صرف اپنے گروپ کے شاعر کا تعارف خوب ڈھنگ سے کرواتے ہیں اور
دیگر شعرا کو ایسے بلاتے ہیں جیسے جانتے تک نہ ہوں۔ ہمارے دیس میں باصلاحیت
شعراء اور اچھے ناظموں کی کمی نہیں مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ ہماری مشاعرہ
کمیٹیوں میں ایسے لوگ زیادہ اثر رکھتے ہیں جنہیں شعرا کی پرکھ نہیں یا شعری
مذاق سے انکا کوئی علاقہ نہیں۔شعراء کے انتخاب نے رسوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ، دیکھا
گیا ہے کہ ناظمِ مشاعرہ بار بار منتظمین کا تعار ف ایسے کرواتا ہے جیسے سامعین
کی سماعتوں پر اس کو بھروسہ نہ ہو شاید اسی لئے ہر پندرہ منٹ بعد اعلان ہوتا
ہے کہ اس مشاعرے کی صدارت فلاں فرمارہے ہیں ا ور مہمانِ خصوصی فلاں ہیں اور
مشاعرہ کو فلا ں فلاں صاحبان نے منعقد کیا ہے۔
متشاعروں اور متشاعرات کا تو ذکر ہی کیا کہ ہمارے بعض اساتذہ کے سبب انکا یہ
بازارِ بدتمیزی چمک پڑا ہے، غلطی اساتذہ کی نہیں منتظمین کی ہے جنہوں نے ان
اساتذہ کا حق مار کر متشاعرات کو مشاعروں کی سیج پر سجایا مجبوراََ ان اساتذہ
کو اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے خوش گلو جوان بچے اور خوبصورت یا قبول صورت مترنم
بچیوں کو پالنا پڑا ، تربیت دینی پڑی اور وہی اساتذہ اپنے تلامذہ کے سبب
مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔
نئے شعرا کو بلا کر تجربے کئے جا سکتے ہیں مگر تجربہ کرنے والے بھی شعراء ہونے
چاہیے۔جیسے دین میں اجتہاد کوئی حافظ وقاری نہیں فقیہ کرتا ہے، اسی طرح
مشاعروں کے معاملات میں بھی مقامی اور دیگر تجربہ کارشعراء سے مشورے لینا اور
انہیں اپنے ساتھ شامل رکھنا آئندہ مشاعروں کے معیار کو بڑھانے اور شعری اور
ادبی خدمت کا حق ادا کرنے کے لئے اتناہی ناگزیر ہے جتنا گاڑی میں ڈالنے کیلئے
صحیح ایندھن کا انتخاب

آپ کی تعریف




’’ آپ کی تعریف؟‘‘
گزشتہ تحریر ’’میَں‘‘ میں نے اپنے تعارف میں پیش کی تھی ،مگر مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ’’میں ‘‘ مقبولِ عام لفظ ہونے کے باوصف معتوب کیوں ہے، ہمارے معاشرے میں کوئی دوسروں کی ’’میں‘‘ سننے کو تیار نہیں ہر آدمی اپنی ہی ’’میں ‘‘ میں مگن ہے۔کسی سے اُس کی شخصیت کے بارے میں پوچھ کر دیکھئے کہ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟، یعنی ’ اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ‘کے مصداق آپ کواتنی ’’میں میں‘‘ سننے کو ملے گی کہ آپ کی سماعتیں اُکتا جائیں ۔ایسا نہیں کہ ’’میں ‘‘ میں کوئی برائی ہے ،بعض اوقات یہی ’’میں‘‘ بہت اچھا لگتا ہے اور قدر کی نگاہ سے(قدرسے مراد مہتاب قدر کی نگاہ ہر گز نہیں کیوں کہ ہمیں بعض اوقات خوبصورت چیزیں معمولی اور معمولی بھی غیرمعمولی اور خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جن کی وجوہات کا تعلق کیفیاتی ہوتاہے اور کیفیات وقتی ہوتے ہیں) ، دیکھا جاتا ہے مثلاََ جب کوئی کہتا ہے ،’’میں معذرت خواہ ہوں‘‘ یاکوئی یوں کہے کہ’’ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے غلطی کی ہے‘‘ وغیرہ۔۔(ایک ہی ’وغیر ‘ہ پر اکتفاکر رہا ہوں زیادہ کی گنجائش نہیں کہ ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں)۔سنتے ہیں کہ ’’میں میں‘‘ کی کثرت بکروں اور بکریوں کو قصائی تک پہنچادیتی ہے ،پھر بھی بکریاں ’’میں میں‘‘ کرنا نہیں چھوڑتیں،کیاکِیا جائے کہ وہ فطرت سے مجبور ہوتی ہیں مگر ہم تو فطری طورپر ’’میں میں ‘‘ کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
’’لگتا ہے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے‘‘ ،یہ جملہ زندگی میں کئی بار سننے اور بولنے کے مواقع تقریباََ ہر کس و ناکس کو میسّر آتے ہیں۔ایک بزرگ کو دیکھ کر ہمیں ایسا ہی لگا تھاجو گیسوکی طرح نرم و سیاہ فام اور خال ِ رُخ ِ ایّام کی صورت ہمارے سامنے تھے ۔جوں ہی ہم نے اُن سے یہ روایتی جملہ کہا ’’شائد آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ‘‘ موصوف کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور جواب ملا ’’خواب میں دیکھا ہوگا‘‘ شریف آدمی تھے اسی لئے جوش ملیح آبادی کی طرح جواب نہیں دیا کہ’’ بارہ برس کی عمر میں دیکھا ہوگا۔‘‘ ہم نے بھی خلاف عادت شراف کا ثبوت دیا یعنی انکی عمراور شخصیت کے رعب میں بلکہ خوف میں مبتلاہوتے ہوئے صبر کے گھونٹ پی گئے حالانکہ زبان پر الفاظ تیرکی طرح کسمساتے ہوئے کمان چھوڑنے کو تیار تھے کہ کہہ دیں ہم اتنے ڈراؤنی خواب نہیں دیکھتے ۔ ۔
تعریف اور تعارف کا ’’چولی دامن کا ساتھ ہے‘‘ چولی دامن کا ساتھ کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا کہ چولی سے صرف تانیث کا اِشارہ ملتا ہے اور دامن تینوں اصناف میں کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ ، اسی لئے چولی کو چھوڑ کر صرف دامن بچاتے ہوے اگر’’ کرتا پیجامے کا ساتھ ہے ‘‘ کہا جائے تو کیا بُرا ہے۔ بہرحال تعارف میں تعریف ہی کی جاتی ہے برے اوصاف نہیں گنائے جاتے اسی سبب ہمارے ایک دوست نے ہمارا تحریر کردہ ایک تعارفی مضمون پڑھ کر ستائشی کلمات یوں لکھے کہ آپ نے تعارف کے پُل باندھ دئیے بلکہ’’ برج خلیفہ‘‘ کھڑا کر دیا ۔ دراصل ہم نے تعارفی مضمون ’’ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘ کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے شاعر دوست کے لئے لکھا اورچراغ میں اپنے حصّے کا تیل ڈال آئے اب انکی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہاتھ دکھائیے


کمرشیل شعرا اور عالمی مشاعرے



Monday, August 5, 2013

پیام ِتہنیت آپ کے نام!


 

پیام  ِتہنیت آپ کے نام!

عیدالفطر ہر سال کی طرح اس سال بھی آئی ہے، برسہا برس سے  ہم ایک دوسرے کو عیدمبارک کے پیام دیتے  آئے  ہیں اور جب تک زندہ ہیں دیتے رہیں گے ،ایک دوسرے کو عید کے تہنیتی پیغامات کا لینا دینا ہمارے سماجی ڈھانچے کی ایک پرانی روایت ہےمذہب نے بھی اسے ایک خوشی کا موقع قرار دیا ہے  کیونکہ   ایک ماہ کی قیام و صیام کے بعد عید پر خوش ہونا روزہ داروں کا حق بھی ہے ۔اسلئے آج  آپ کے نام عید کا تہنیتی پیام تمام عالم کے مسلمانوں کی جانب سے جن میں دیوبندی ،بریلوی ، شیعہ سنی ہر طبقے کے کلمہ گو شامل ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔یہ پیغام ہے ابروئے یار کے نام بھی ،گیسوئے خمدار کے نام بھی ،چشم نیلی فام کے نام بھی ، عارض گلفام کے نام بھی ، عاشق ِ ناکام کے نام بھی   ۔واقعاتی شاعروں کے نام بھی حادثاتی ادیبوں کے نام بھی ۔ ہاں آپ سب کی خدمت میں جن میں بزم  کے اہل ِ علم و دانش بھی   شامل ہیں اور وہ بھی جو اپنے کو دانشور سمجھتے ہیں یا حکمت و دانش کی باتوں میں اپنی ٹانگ اڑاتے رہنا  اپنے علم کے اظہار کےلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔پختہ کار شعرا بھی اور نوآموز مشق سخن کرنے والے بھی میرے مخاطب ہیں اور وہ بھی جو افسانے اور کہانیاں لکھ لکھ کر اردو ادب کے قلمکار قافلے میں اپنے وجود کا احساس قائم رکھتے ہیں ۔سوشیل میڈیا فیس بک ،لنک ڈن ، سرکلز، نٹلاگ اور ٹویٹر کے وہ تمام اراکین جن سے میری گاہے گاہے کسی نہ کسی صورت ملاقات ہوتی ہے یا رابطے  میں رہتے ہیں۔ان میں واقعی موجود اورزندہ کردار بھی شامل ہیں اور فیک یا جعلی شناخت بنا کر اپنے اندر کی گندگیاں دوسروں پر ڈالنے والے کرم فرمابھی میرے پیام تہنیت کے مخاطب ہیں۔گوگل گروپس ، یاہو کمیونٹیز اور دیگر انجمنوں اور ویب سائٹس کے کرتادھرتا احباب تک بھی میں اپنا پیام تہنت پہنچانا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ پیام میرااپنا نہیں ہے یہ پیام تہنیت انکی جانب سے ہے جو مفلسی مفلوک الحالی اور غربت کے سبب عید کی خوسشیوں میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے انکے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکیں ۔یہ پیام عید ان مظلوم لڑکیوں کی  سسکتی آہ وبکا کی جانب سے بھی ہے جنکے سسرال والے انہیں عید کے موقع پر اپنے ماں باپ سے تک ملنے کی اجازت نہیں دیتے ،جنہیں جہیز جوڑے کی رقم کی طنزوطعن جینے کے بہانے بھی چھین لیتے ہیں ۔ان بوڑھے ماں باپ کی طرف سے بھی آپ تک یہ پیغام عید ہے جن کے پاس اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے سرمایہ نہیں ہے وہ منتطر ہیں کہ کوئی  بیمار ذہن اہل ثروت آئے اورجھوٹے وعدوں کے ذریعے  انکی نوخیز کلیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انکے جینے کا سامان کرجائے، یہ عید مبارک انکی جانب سے بھی ہے جن کے بے قصور بچے کسی بھی سبب سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے  عید کے پرانے تصورات سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے ماں باپ کی دعاوں اور اپنےگھر جانے  کا انتظار کررہے ہیں۔یہ پیام تہنیت آے دن بم بلاسٹ میں مرنے والوں کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ وہ تو چلے گئے اس عالم ِ نفاق و منافرت سے ان کا حق تو وہ ادا کرتا ہے  جو کسی کا حق دباتا نہیں ہے بلکہ ہرایک کو اس کے کئے کی پوری پوری جزا دیتا ہے اور ظالم و مظلوم کے بیچ فیصلہ کرنے کا جس نے اعلان اس طرح کر رکھا ہے کہ اگر کوئی سینگ والی بکری نے دنیا بھی کسی بے سنیگ والی بکری کو سینگ مارا ہوگا تو اس کے حضور بے سینگ والی بکری کو سینگ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ ظلم کرنے والی بکری سے اپناحساب چکا لے، یہ پیام ِ عید آپ کے نام  ان زخم خردہ لوگوں کی جانب سے ہے جو بم بلاسٹ میں اپنے بریدہ جسموں کے سبب ہسپتالوں میں پڑے ہیں ،جن کے گھر میں عید منانے کو کچھ نہیں اور وہ اپنی جسمانی اذیتوں کے ساتھ ذہنی تکلیف میں بھی مبتلا کردئے گئے ہیں کہ صحتیاب ہوں تو کچھ کما سکیں۔ان بیبیوں کی جانب سے بھی جن کے شریک حیات پیسہ کمانے کی دھن میں انہیں وطن میں چھوڑ آئے ہیں وہ چاہتے ہوے بھی عید کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتیں نہ رسم دنیا نبھا سکتی ہیں نہ کوئی ازدواجی دستور سے مستفید ہو سکتی ہیں ۔

آپ سب گواہ رہنا کہ میں نے آپ تک ان تمام مظلوں کا پیام عید پہنچادیا ہے اگر فرصت ملے تو اپنی عید کے لمحات میں نہ سہی عید کے بعد ہی ان مسائل اور ان مجبوریوں اور مجبوروں کےلئے بساط بھر کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیجئے ،ارے نیت تو کرلیجئے کہ دینے والا داتا  نیتوں کے ساتھ اجر لکھوانا شروع کردیتاہے اور اگر کچھ کر سکے تو سونے پہ سہاگہ۔

 

                                                                             مہتاب قدر        

 

 

ہے کوئی غیرتمند!!


Tuesday, July 30, 2013

نامے ہمارے نام مہتاب قدر

نامے ہمارے نام
مہتاب قدر

غالب آج زندہ ہوتے تو بعداز مرگ انکے گھر سے چند نہیں بہت زیادہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط نکلتے کیونکہ دنیا بھر کے شعراء ادبا کی طرح بچتے بچاتے بھی غالب فیس بک پرآہی جاتے کہ آج کے دور میں اس سے بھاگنا ممکن نہ رہاجب فیس بک پر آتے تو پھر۔۔۔ نہ جانے کیسی کیسی تصویروں سے اور کیا کیا اور کون کون سے ناموں سے غالب کو تنگ کیا جا تا۔اور غالب پھر غالباََ یوں کہتے ،
چند تشہیری بیاں، چند کمینوں کے خطوط
میں نے ایمیل جو کھولا تو یہ ساماں نکلا
خیر فیس بک پر تو پھر بھی کسی قدر آپ اپنے مخاطب کو جھوٹے یا سچے پروفائل سے پہچان سکتے ہیں یا پہچاننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔مگرایمیل
کے ذریعے جو خطوط ہمیں ملتے ہیں یا ہوسکتا ہے بہت سے احباب کو
ملتے ہوں انکا انداز بیاں اور مشمولات اتنے ماہرانہ دلکش اور دلپذیر ہوتے ہیں کہ اگرآپ کے سینے میں دل ہو اور اوپر کا خانہ قدرے کمزور ہو توآپ کا انکے عشق میں مبتلا ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ان خطوط کی چند خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ برِاعظم افریقہ سے تعلق رکھتے ہوں،چاہے ایمیل ارسال کرنے والا اپنا تعلق کبھی لندن سے بتائے کبھی امریکہ یورپ سے مگراس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جاکر افریقہ سے مل جاتے ہیں۔ہمارے ان محبان کی نظرعالمی سیاست پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ جب کہیں کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے یا کسی ہوائی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے تو ہمیں فوراََ ایمیل ملتا ہے کہ وہ جو معزول سیاست دان ہیںیا اس ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے دنیا کے فلاں متمول شخص ہیں،جس حادثہ کی اطلاع بی بی سی نے فلاں دن حسب ذیل لنک پر دی ہے، میں انکی بیٹی یا بیوی ہوں موصوف نے میرے نام لاکھوں کروڑوں کی رقم بنک میں جمع کروا رکھی ہے مگر میرے بدخواہ مجھے اس سے استفادہ نہیں کرنے دیتے اسلئے میں یہ رقم آپ کے نام ٹرانسفر کرنا چاہتی ہوں مجھے آپ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے اسلئے آپ اپنا مکمل پتہ اور بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات فوراََ بھیج دیں۔پہلے پہل جو ایمیل ہمیں ملتے رہے ان میں پچیس سے تیس برس کی دوشیزائیں اور بیواؤں کے خطوط زیادہ ہوتے تھے ،جس میں خطوط کے ساتھ انکی ایک عدد تصویر بھی چسپاں ہوتی مگرجب کسی ایمیل کا جواب نہ دیا گیا تو پینترابدل دیا گیا اور پھراللہ رسول کے واسطے سے باتیں ہونے لگیں اب شادی کے پروپوزل نہیں ملتے بلکہ یوں لکھا جاتا کہ اتنی ساری رقم میں کیا کروں ،آپ چاہیں تو اسے کسی خیراتی ادارے میں جمع کروادیں تاکہ آخرت میں اس کا اجرآپ کو اور مجھے ملتا رہے ورنہ یہ میرے رشتہ دار سب ہضم کرجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔یہ خطوط کبھی کبھی ان مشہورِ زماں ہستیوں کے اٹارنیوں کی جانب سے بھی ملتے ہیں کہ فلاں فلاں نے آپ سے رابطہ کرکے انکی جملہ پونجی آپ کے نام بنک میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے،آپ جلداپنے بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔کبھی بزنس پرپوزل بھی ملتے ہیں کہ میرے پاس اتنی رقم ہے ،میں آپ کے ساتھ تجارت میں لگانا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں،مجھے اللہ کے بعد آپ پر پورا بھروسہ ہے۔کبھی سوچتا ہوں یہ ایمیل فلکی صاحب کو فارورڈ کردوں کہ وہ فینانس کے معاملے میں اچھے مشیر ثابت ہو سکتے ہیں،خیر۔زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایمیل اتنے خوبصورت کہ گویا کوئی تخیلاتی سطح پر لکھا گیا افسانہ ہو یا کسی ماہر چال باز کی چابک دست تحریر۔عموماََ خط کی ابتداء یوں کی جاتی کہ آپ حیران ہونگے کہ یہ کون آپ سے مخاطب ہے، میں آپ کیلئے اجنبی ہوں لیکن یقین جانئے کہ بہت چھان بین کے بعد میں نے آپ کا پتہ حاصل کیا خدارا انکار نہ کیجئے دنیا میں میرا کوئی نہیں اور مجھے آپ کی شخصیت نے اتنا متاثر کیا کہ میں آپ پر پورا اطمینان کر سکتی ہوں۔آج کل آنے والے خطوط عموماََ بسم اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور نام بھی بلکل برصغیر کے مسلمانوں جیسے۔بعض خطوط میں لکھا جاتاہے کہ میرے شوہر تو گزرگئے اور میرے طبیب نے مجھے بھی کینسر یا اسی قبیل کی کسی بیماری کی تشخیص کی ہے اب میں زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی اسلئے یہ رقم آپ کے سپرد کرکے چین سے مرنا چاہتی ہوں۔ان خطوط کے پیچھے پوشیدہ چال بازیوں کا بعض لوگ شکار بھی ہوئے ان سے کہا گیا کہ آپ کی رقم ہم آپ کو براہ راست دینا چاہتے ہیں اسلئے فلاں ملک تشریف لائیے اور اپنی دولت سمیٹ لے جائیے۔چنانچہ بعض لوگ سفر کرکے ان ملکوں کو گئے اور ظاہر ہے جب کوئی بیرون کا سفر کرتا ہے تو اپنے ساتھ مناسب اخراجات بھی ساتھ لے جاتا ہے اور بنک کارڈس بھی۔وہاں جانے پر انہیں لوٹ لیا گیا اور روتے پیٹنے لوٹ کے بدھو گھرکو آئے۔یا بینگ اکاؤنٹ کی تفصیلات دینے والوں کو ہیکرز کے ذریعے پاس ورڈ معلوم کرکے انکی ساری جمع پونججی نکال لی گئی۔اس میں ایمیل بھیجنے والوں کا دھیلا بھی خرچ نہ ہوا اور بھروسہ کرنے والے نادانوں کو خسارے برداشت کرنے پڑے۔پتہ چلا ہے کہ افریقی ممالک میں ایک پورا نٹ ورک ہے جو ریسرچ کرکے لوگوں کے احوال انکے مزاجوں کے مطابق ایمیل لکھواتا ہے اور انہیں بھیج کر جال میں پھانسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کاش ان میں ایک خط بھی سچ ہوتا تومیں آج دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا۔ لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ ۔۔۔۔کیاش ہوتا ابھی خط آنے بند نہیں ہوئے ہیں اسلئے اگراور جیتے رہے تو کسی سچے خط کا انتظار کرنے کو جی چاہتاہے۔

Wednesday, July 24, 2013

Headlines 24 July 2013 تراشے خراشے

آج کی سرخیوں  کے تراشے خراشے

نسلی بنیاد پر ٹریولرز کو نشانہ بنانے والی 77سالہ خاتون کی عدالت میں پیشی
۷۷ سال میں یہ عالم ہے تو جوانی میں کس کس کونشانہ بنایا ہوگا۔
 مصر میں احتجاج جاری، دس مظاہرین ہلاک
مصر ی قوم  ہنگاموں کی عادی ہو چکی  اس لئے وہ اس پر متفق ہو چکی ہے کہ وہ کسی سے اتفاق نہیں کریں گے۔
پاکستان میں اداکاروں نے علما کی جگہ لے لی
اب علما اداکاری کیسے کریں گے کہ ان کا مقام انکو واپس مل سکے
 ازبکستان میں آگ بجھانے والے محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ان کی تشکیل نو کا فیصلہ
کیا نئے کارکنوں کو آگ لگانے کی تربیت دی جائے گی؟ تاکہ پہلے لگائیں پھر بجھائیں  اسطرح کارکردگی کامظاہر خوب ہوگا

 امیتابھ بچن کی زندگی پر بالی ووڈ میں ڈاکیومینٹری بن رہی ہے
اگر شتروگھن سنہا کی زندگی پر بنے تو ڈاکو مین ٹرائی بنے گی
 فلم ڈیڑھ عشقیہ میں درست اردو بولنا مادھوری کیلئے درد سر بن گیا
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

  افطار توپ: رمضان کی شادمانی اور مسلمانوں کے دبدبے کی علامت
اور جہاں توپ نہیں بجتی کیا وہاں مسلمان کا دبدبہ دب کر رہ جاتا ہے؟حقیقت خرافات میں کھو گئی

 بڑے فنکاروں کی ’بی گریڈ‘ فلمیں
بی گریڈ فنکاروں کی عید ہوگئی ،بی گریڈ فلم پروڈیوسروں کا تجارتی پینترا

عوامی لوکپال کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کروں گا: انا
لگتا ہے اب عوامی لوک پاک تحریک کے دن قریب آگئے ہیں

 ناشتہ نہ کرنے والوں میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے:تحقیق
اور جم کر تین وقت کھانے والوں میں کون کون سے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے

  پاک فضائیہ کامشاق طیارہ دریائے سندھ میں گر کرتباہ
گرنے کی مشق کررہاہوگا اگر کہیں اور گرتا توالزام پڑوسی کے سر جاتا

 چین کا قصبہ ڈیفن شاہکار فن پار وں کی نقل تیار کرنے کابڑا مرکز
چین میں ہر شئے  کی نقل کاری شاہکاری  ہی ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی قصبے میں ہو۔
 

 ثانیہ مرزا یو ایس اوپن ٹینس میں چینی کھلاڑی کے ساتھ جوڑی بنائیں گی
اس وقت انکے جوڑی دار کرکٹر شوہر رنز بنانے میں مصروف کردیے جائیں گے۔

  اسکواش: انگلینڈ سے ہارگئیں ہندستانی لڑکیاں
اسکواش کی کیا بات ہے ویسے بھی پرنس چارلس کی آمد  پر ہندوستانی اداکارہ اپنا وقار ہار چکی ہیں
  

  سروے میں جنوب میں فائدے میں رہے گی کانگریس ، بی جے پی کا صفایا ہوگا
سروے عموما عوامی رائے کو متاثر کرنے کا ایک حربہ ہوتی ہے

  شتروگھن سنہا پر کارروائی کرے گی بی جے پی
کاروائی رسمی ہوگی یا غیر رسمی
 

پانچ ویں کی طالبہ سے پرنسپل نے کی چھیڑ چھاڑ
کیا اسکول صرف پانچویں جماعت تک ہی تھا؟
 

 بالی وڈ میں ایک اور خان کا اضافہ ہونے والا ہے
ایک خان اندر جائیں تو دوسرےکو اضافہ نہیں کہتے

 میرٹھ میں فساد کے بعد کشیدگی
امن کے بعد کشیدگی یا کشیدگی کے بعد امن  ہوتاہے یہ فساد کے بعدکشیدگی کیا ہوتی ہے

آندھرا میں پنچایت انتخابات جیتنے والے زیادہ تیلگو دیشم پارٹی حمایت یافتہ'
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
 
بھارت میں اب غریبوں کی تعداد ستائیس کروڑ
اتنے فسادات کے بعد  بھی یہ تعداد کم نہ ہوئی
 
غربت کے اعداد و شمار پر بی جے پی نے کی حکومت کی کھنچائی
اپوزیشن اپنافرض منصبی نبھاتی ہے
  
بھوکتا بنیں گے جھارکھنڈ اسمبلی کے صدر
بھوکتا بن کر کاٹیں گے تو نہیں نا!
  
ممبئی کی ٹی وی انا?نسر پر ہاوڑا میں حملہ
حملہ ہونےکےلئے ٹی وی اناونسر ہونا لازمی نہیں  
    
    ٹیگور پر اردو میں کتاب شائع
آج تک ٹیگور کے لکھے قومی ترانے کو ہم بنگالی میں پڑھتے آرہے ہیں اس تکلف کی کیا ضرورت تھی
 
 

Friday, July 19, 2013

میں کون WHO AM I



میں
میںکون ہوں؟ میں نے یہ سوال بارہا اپنے آپ سے کیا ہے مگر جواب اب تک تشفی بخش نہیں ملا۔پھر بھی جب
کسی سے ملتا ہوں تو مجبوراََ اپنے بارے میں کچھ نہ کچھ تعارفی کلمات کہنے پڑتے ہیں،مثلاََ میں مہتاب قدر ہوں ۔ ۔۔کسرِ نفسی سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ’’ اردو کاطالب علم‘‘ ہوں حالانکہ میں ایساسمجھتا نہیں ہوں ،ضرورت پڑنے پر اچھے اچھوں کو خاطرمیں نہیں لاتا۔ویسے یہ بھی بتاتاچلوں کہ یہ مرض ابتدائی زمانے میں بہت زور پکڑرہاتھالیکن وقت اور پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت نے یہ خوش فہمی دور تو کردی مگر اندیشہ ہے کہ اس کا دور ہ دوبارہ کسی بھی وقت پڑسکتا ہے ،کہتے ہیں آدمی کو بگڑتے دیرنہیں لگتی ۔ قحط الرجا ل کے اس زمانے میں اچھے اورستھرے ذوق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ دوستی کے واسطے کم ہی میسر آتے ہیں۔   
’’مہتاب قدر‘‘یہ نام میرے والدین نے نہیں رکھا بلکہ میرے ایک دوست نے رکھا وہ بھی شیرخواری کے زمانے میں نہیں بلکہ لڑکپن میں جب میں اردو لکھ پڑھ سکتاتھا۔ نام رکھائی کے لڈو اس لئے تقسیم نہ کئے جا سکے کہ دونوں کی جیبیں نیم تعمیر شدہ مکان کی طرح غیر آبادتھیں،ہوایوں کہ جب میں انگریزی میڈیم کے اسکول کی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا (یہاں یہ بھی باور کروانا مقصودہے کہ میرا ذریعہ ِ تعلیم انگریزی رہا ہے کیوں کہ اس طر ح کہنے یالکھنے سے لوگ جلد مرعوب ہوجاتے ہیں)اُسی عرصے میں مجھ پر اردو کا بُھوت سوار ہو چکاتھا(اچھا ہوا اردو کا بھوت ہی سوارہواکسی اور کاہوتا تو زندگی یہی کہتے کٹ جاتی کہ ’’ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‘‘ )ہمارے گھر والے بلکہ گھر والی تو اب بھی یہی سمجھتی ہیں کہ ہم کو اردو نے نکمّکا کررکھا ہے ورنہ ہم بھی ۔۔۔ویسے اس ابتلا کے اثرات تو پانچویں چھٹی جماعت سے ہی ظاہرہونا شروع ہوگئے تھے ،مگر باقاعدگی سے نثر و نظم لکھنے اور سناکر داد لینے کاشوق اسی مذکورہ بالا زمانے کی دین ہے ۔سو ہمارے دوست انصار نے جوعمر میں ہم سے کافی بڑے بھی تھے ، جنھیں کوئی کام کاج نہیں تھاگھر پرہی مفت کی روٹیاں کھاتے کٹتی تھی (گوکہ بعدمیں انہیں ہدایت ملی اوروہ بھی کسی فیکٹری میں کام پر لگ گئے) ہم سے ایک قلمی میگزین جاری کرنے کی تجویز پر حامی بھرلی،تجویزہماری تھی یا انکی اب اتنا یاد نہ رہا لیکن موصوف نے اپنا نام’’ شہاب نادر‘‘ اورہمارانام’’ مہتاب قدر‘‘رکھنا طئے کیا اور اُس میگزین کا نام ’پرواز‘ رکھا گیا جس کے مدیر مہتاب قدراور ناشرپبلشر شہاب نادرقرارپائے۔مدیر بننے کا چسکالگا تومہتاب قدرنے شاعری کے علاوہ نثر کی طرف توجہ دی اور طنز ومزاح کے ساتھ انگریزی کہانیوں کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرلی۔ہم اسے سعادت اسلئے گردانتے ہیں کہ انگریزی ادب کے حوالے بہت مضبوط حوالے سمجھے جاتے ہیں لوگ ان کاذکراپنی تحریرو تقریر میں کرکے اپنی قابلیت کے جوہر منوانے کی کوشش کرتے ہیں سوہم نے بھی یہاں یہی کیا ہے۔الغرض ماہنامہ پرواز کے دو تین رسالے ہی جاری ہو سکے جنہیں موصوف نے بہت جی جان لگاکرمزین کئے اور ہرماہ ایک ہی نسخہ پورے حلقہ احباب میں جن کی عمریں
۱۳ تا ۱۸ برس رہی ہوں گی گشت کروایاجاتا تھا۔ خیر اس تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں،اب ہم اچھے خاصے( بزعم خود) شاعر ادیب مزاح نگار ،صحافی اورنہ جانے کیا کیا ہیں لیکن ہمیں آج تک کسی نے ’’چوں چوں کا مربّہ‘‘ یا انگریزی کہاوت ’’جیک آ ف آل ماسٹر آف نن‘‘ نہیں کہاہے یقین نہ ہو تو آپ رازداری کے ساتھ ہمارے دوستوں اور دشمنوں سے پوچھ لیجئے ۔اگرآپ نا پوچھ سکے تو ہم ہی ایک جعلی یافیک آئی ڈی بنا کر اپنے بارے میں سروے کر سکتے ہیں اور وہ جعلی شناخت کسی نسوانی طرزکی ہو توجواب آنے میں دیربھی نہیں لگے گی مگرنتائج کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی ضروری ہے