پیام ِتہنیت
آپ کے نام!
عیدالفطر ہر سال کی طرح اس سال بھی آئی ہے، برسہا برس
سے ہم ایک دوسرے کو عیدمبارک کے پیام دیتے
آئے ہیں اور جب تک زندہ ہیں دیتے رہیں گے ،ایک دوسرے
کو عید کے تہنیتی پیغامات کا لینا دینا ہمارے سماجی ڈھانچے کی ایک پرانی روایت ہےمذہب
نے بھی اسے ایک خوشی کا موقع قرار دیا ہے کیونکہ ایک ماہ کی قیام و صیام کے بعد عید پر خوش ہونا
روزہ داروں کا حق بھی ہے ۔اسلئے آج آپ
کے نام عید کا تہنیتی پیام تمام عالم کے مسلمانوں کی جانب سے جن میں دیوبندی
،بریلوی ، شیعہ سنی ہر طبقے کے کلمہ گو شامل ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی
جسارت کررہا ہوں۔یہ پیغام ہے ابروئے یار کے نام بھی ،گیسوئے خمدار کے نام بھی ،چشم
نیلی فام کے نام بھی ، عارض گلفام کے نام بھی ، عاشق ِ ناکام کے نام بھی ۔واقعاتی
شاعروں کے نام بھی حادثاتی ادیبوں کے نام بھی ۔ ہاں آپ سب کی خدمت میں جن میں بزم
کے اہل ِ علم و دانش بھی شامل
ہیں اور وہ بھی جو اپنے کو دانشور سمجھتے ہیں یا حکمت و دانش کی باتوں میں اپنی
ٹانگ اڑاتے رہنا اپنے علم کے اظہار کےلئے
ناگزیر سمجھتے ہیں۔پختہ کار شعرا بھی اور نوآموز مشق سخن کرنے والے بھی میرے
مخاطب ہیں اور وہ بھی جو افسانے اور کہانیاں لکھ لکھ کر اردو ادب کے قلمکار قافلے
میں اپنے وجود کا احساس قائم رکھتے ہیں ۔سوشیل میڈیا فیس بک ،لنک ڈن ، سرکلز،
نٹلاگ اور ٹویٹر کے وہ تمام اراکین جن سے میری گاہے گاہے کسی نہ کسی صورت ملاقات
ہوتی ہے یا رابطے میں رہتے ہیں۔ان میں
واقعی موجود اورزندہ کردار بھی شامل ہیں اور فیک یا جعلی شناخت بنا کر اپنے اندر
کی گندگیاں دوسروں پر ڈالنے والے کرم فرمابھی میرے پیام تہنیت کے مخاطب ہیں۔گوگل
گروپس ، یاہو کمیونٹیز اور دیگر انجمنوں اور ویب سائٹس کے کرتادھرتا احباب تک بھی
میں اپنا پیام تہنت پہنچانا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ پیام میرااپنا نہیں ہے یہ پیام
تہنیت انکی جانب سے ہے جو مفلسی مفلوک الحالی اور غربت کے سبب عید کی خوسشیوں میں
آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے انکے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو
پہنا سکیں ۔یہ پیام عید ان مظلوم لڑکیوں کی سسکتی آہ وبکا کی جانب سے بھی ہے جنکے سسرال
والے انہیں عید کے موقع پر اپنے ماں باپ سے تک ملنے کی اجازت نہیں دیتے ،جنہیں جہیز
جوڑے کی رقم کی طنزوطعن جینے کے بہانے بھی چھین لیتے ہیں ۔ان بوڑھے ماں باپ کی طرف
سے بھی آپ تک یہ پیغام عید ہے جن کے پاس اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے سرمایہ نہیں
ہے وہ منتطر ہیں کہ کوئی بیمار ذہن اہل
ثروت آئے اورجھوٹے وعدوں کے ذریعے انکی
نوخیز کلیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انکے جینے کا سامان کرجائے، یہ عید مبارک
انکی جانب سے بھی ہے جن کے بے قصور بچے کسی بھی سبب سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے
بیٹھے عید کے پرانے تصورات سے دل بہلانے
کی کوشش کرتے ہوئے ماں باپ کی دعاوں اور اپنےگھر جانے کا انتظار کررہے ہیں۔یہ پیام تہنیت آے دن بم
بلاسٹ میں مرنے والوں کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ وہ تو چلے گئے اس عالم ِ نفاق و
منافرت سے ان کا حق تو وہ ادا کرتا ہے جو
کسی کا حق دباتا نہیں ہے بلکہ ہرایک کو اس کے کئے کی پوری پوری جزا دیتا ہے اور
ظالم و مظلوم کے بیچ فیصلہ کرنے کا جس نے اعلان اس طرح کر رکھا ہے کہ اگر کوئی
سینگ والی بکری نے دنیا بھی کسی بے سنیگ والی بکری کو سینگ مارا ہوگا تو اس کے
حضور بے سینگ والی بکری کو سینگ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ ظلم کرنے والی
بکری سے اپناحساب چکا لے، یہ پیام ِ عید آپ کے نام ان زخم خردہ
لوگوں کی جانب سے ہے جو بم بلاسٹ میں اپنے بریدہ جسموں کے سبب ہسپتالوں میں پڑے
ہیں ،جن کے گھر میں عید منانے کو کچھ نہیں اور وہ اپنی جسمانی اذیتوں کے ساتھ ذہنی
تکلیف میں بھی مبتلا کردئے گئے ہیں کہ صحتیاب ہوں تو کچھ کما سکیں۔ان بیبیوں کی
جانب سے بھی جن کے شریک حیات پیسہ کمانے کی دھن میں انہیں وطن میں چھوڑ آئے ہیں وہ
چاہتے ہوے بھی عید کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتیں نہ رسم دنیا نبھا
سکتی ہیں نہ کوئی ازدواجی دستور سے مستفید ہو سکتی ہیں ۔
آپ سب گواہ رہنا کہ میں نے آپ تک
ان تمام مظلوں کا پیام عید پہنچادیا ہے اگر فرصت ملے تو اپنی عید کے لمحات میں نہ
سہی عید کے بعد ہی ان مسائل اور ان مجبوریوں اور مجبوروں کےلئے بساط بھر کچھ کر
گزرنے کی ٹھان لیجئے ،ارے نیت تو کرلیجئے کہ دینے والا داتا نیتوں کے ساتھ اجر لکھوانا شروع کردیتاہے اور
اگر کچھ کر سکے تو سونے پہ سہاگہ۔
مہتاب
قدر
No comments:
Post a Comment