Sunday, August 18, 2013

آپ کی تعریف




’’ آپ کی تعریف؟‘‘
گزشتہ تحریر ’’میَں‘‘ میں نے اپنے تعارف میں پیش کی تھی ،مگر مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ’’میں ‘‘ مقبولِ عام لفظ ہونے کے باوصف معتوب کیوں ہے، ہمارے معاشرے میں کوئی دوسروں کی ’’میں‘‘ سننے کو تیار نہیں ہر آدمی اپنی ہی ’’میں ‘‘ میں مگن ہے۔کسی سے اُس کی شخصیت کے بارے میں پوچھ کر دیکھئے کہ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟، یعنی ’ اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ‘کے مصداق آپ کواتنی ’’میں میں‘‘ سننے کو ملے گی کہ آپ کی سماعتیں اُکتا جائیں ۔ایسا نہیں کہ ’’میں ‘‘ میں کوئی برائی ہے ،بعض اوقات یہی ’’میں‘‘ بہت اچھا لگتا ہے اور قدر کی نگاہ سے(قدرسے مراد مہتاب قدر کی نگاہ ہر گز نہیں کیوں کہ ہمیں بعض اوقات خوبصورت چیزیں معمولی اور معمولی بھی غیرمعمولی اور خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جن کی وجوہات کا تعلق کیفیاتی ہوتاہے اور کیفیات وقتی ہوتے ہیں) ، دیکھا جاتا ہے مثلاََ جب کوئی کہتا ہے ،’’میں معذرت خواہ ہوں‘‘ یاکوئی یوں کہے کہ’’ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے غلطی کی ہے‘‘ وغیرہ۔۔(ایک ہی ’وغیر ‘ہ پر اکتفاکر رہا ہوں زیادہ کی گنجائش نہیں کہ ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں)۔سنتے ہیں کہ ’’میں میں‘‘ کی کثرت بکروں اور بکریوں کو قصائی تک پہنچادیتی ہے ،پھر بھی بکریاں ’’میں میں‘‘ کرنا نہیں چھوڑتیں،کیاکِیا جائے کہ وہ فطرت سے مجبور ہوتی ہیں مگر ہم تو فطری طورپر ’’میں میں ‘‘ کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
’’لگتا ہے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے‘‘ ،یہ جملہ زندگی میں کئی بار سننے اور بولنے کے مواقع تقریباََ ہر کس و ناکس کو میسّر آتے ہیں۔ایک بزرگ کو دیکھ کر ہمیں ایسا ہی لگا تھاجو گیسوکی طرح نرم و سیاہ فام اور خال ِ رُخ ِ ایّام کی صورت ہمارے سامنے تھے ۔جوں ہی ہم نے اُن سے یہ روایتی جملہ کہا ’’شائد آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ‘‘ موصوف کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور جواب ملا ’’خواب میں دیکھا ہوگا‘‘ شریف آدمی تھے اسی لئے جوش ملیح آبادی کی طرح جواب نہیں دیا کہ’’ بارہ برس کی عمر میں دیکھا ہوگا۔‘‘ ہم نے بھی خلاف عادت شراف کا ثبوت دیا یعنی انکی عمراور شخصیت کے رعب میں بلکہ خوف میں مبتلاہوتے ہوئے صبر کے گھونٹ پی گئے حالانکہ زبان پر الفاظ تیرکی طرح کسمساتے ہوئے کمان چھوڑنے کو تیار تھے کہ کہہ دیں ہم اتنے ڈراؤنی خواب نہیں دیکھتے ۔ ۔
تعریف اور تعارف کا ’’چولی دامن کا ساتھ ہے‘‘ چولی دامن کا ساتھ کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا کہ چولی سے صرف تانیث کا اِشارہ ملتا ہے اور دامن تینوں اصناف میں کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ ، اسی لئے چولی کو چھوڑ کر صرف دامن بچاتے ہوے اگر’’ کرتا پیجامے کا ساتھ ہے ‘‘ کہا جائے تو کیا بُرا ہے۔ بہرحال تعارف میں تعریف ہی کی جاتی ہے برے اوصاف نہیں گنائے جاتے اسی سبب ہمارے ایک دوست نے ہمارا تحریر کردہ ایک تعارفی مضمون پڑھ کر ستائشی کلمات یوں لکھے کہ آپ نے تعارف کے پُل باندھ دئیے بلکہ’’ برج خلیفہ‘‘ کھڑا کر دیا ۔ دراصل ہم نے تعارفی مضمون ’’ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘ کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے شاعر دوست کے لئے لکھا اورچراغ میں اپنے حصّے کا تیل ڈال آئے اب انکی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment