نامے ہمارے نام
مہتاب قدر
غالب آج زندہ ہوتے تو بعداز مرگ انکے گھر سے چند نہیں بہت زیادہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط نکلتے کیونکہ دنیا بھر کے شعراء ادبا کی طرح بچتے بچاتے بھی غالب فیس بک پرآہی جاتے کہ آج کے دور میں اس سے بھاگنا ممکن نہ رہاجب فیس بک پر آتے تو پھر۔۔۔ نہ جانے کیسی کیسی تصویروں سے اور کیا کیا اور کون کون سے ناموں سے غالب کو تنگ کیا جا تا۔اور غالب پھر غالباََ یوں کہتے ،
چند تشہیری بیاں، چند کمینوں کے خطوط
میں نے ایمیل جو کھولا تو یہ ساماں نکلا
خیر فیس بک پر تو پھر بھی کسی قدر آپ اپنے مخاطب کو جھوٹے یا سچے پروفائل سے پہچان سکتے ہیں یا پہچاننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔مگرایمیل
کے ذریعے جو خطوط ہمیں ملتے ہیں یا ہوسکتا ہے بہت سے احباب کو
ملتے ہوں انکا انداز بیاں اور مشمولات اتنے ماہرانہ دلکش اور دلپذیر ہوتے ہیں کہ اگرآپ کے سینے میں دل ہو اور اوپر کا خانہ قدرے کمزور ہو توآپ کا انکے عشق میں مبتلا ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ان خطوط کی چند خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ برِاعظم افریقہ سے تعلق رکھتے ہوں،چاہے ایمیل ارسال کرنے والا اپنا تعلق کبھی لندن سے بتائے کبھی امریکہ یورپ سے مگراس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جاکر افریقہ سے مل جاتے ہیں۔ہمارے ان محبان کی نظرعالمی سیاست پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ جب کہیں کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے یا کسی ہوائی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے تو ہمیں فوراََ ایمیل ملتا ہے کہ وہ جو معزول سیاست دان ہیںیا اس ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے دنیا کے فلاں متمول شخص ہیں،جس حادثہ کی اطلاع بی بی سی نے فلاں دن حسب ذیل لنک پر دی ہے، میں انکی بیٹی یا بیوی ہوں موصوف نے میرے نام لاکھوں کروڑوں کی رقم بنک میں جمع کروا رکھی ہے مگر میرے بدخواہ مجھے اس سے استفادہ نہیں کرنے دیتے اسلئے میں یہ رقم آپ کے نام ٹرانسفر کرنا چاہتی ہوں مجھے آپ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے اسلئے آپ اپنا مکمل پتہ اور بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات فوراََ بھیج دیں۔پہلے پہل جو ایمیل ہمیں ملتے رہے ان میں پچیس سے تیس برس کی دوشیزائیں اور بیواؤں کے خطوط زیادہ ہوتے تھے ،جس میں خطوط کے ساتھ انکی ایک عدد تصویر بھی چسپاں ہوتی مگرجب کسی ایمیل کا جواب نہ دیا گیا تو پینترابدل دیا گیا اور پھراللہ رسول کے واسطے سے باتیں ہونے لگیں اب شادی کے پروپوزل نہیں ملتے بلکہ یوں لکھا جاتا کہ اتنی ساری رقم میں کیا کروں ،آپ چاہیں تو اسے کسی خیراتی ادارے میں جمع کروادیں تاکہ آخرت میں اس کا اجرآپ کو اور مجھے ملتا رہے ورنہ یہ میرے رشتہ دار سب ہضم کرجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔یہ خطوط کبھی کبھی ان مشہورِ زماں ہستیوں کے اٹارنیوں کی جانب سے بھی ملتے ہیں کہ فلاں فلاں نے آپ سے رابطہ کرکے انکی جملہ پونجی آپ کے نام بنک میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے،آپ جلداپنے بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔کبھی بزنس پرپوزل بھی ملتے ہیں کہ میرے پاس اتنی رقم ہے ،میں آپ کے ساتھ تجارت میں لگانا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں،مجھے اللہ کے بعد آپ پر پورا بھروسہ ہے۔کبھی سوچتا ہوں یہ ایمیل فلکی صاحب کو فارورڈ کردوں کہ وہ فینانس کے معاملے میں اچھے مشیر ثابت ہو سکتے ہیں،خیر۔زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایمیل اتنے خوبصورت کہ گویا کوئی تخیلاتی سطح پر لکھا گیا افسانہ ہو یا کسی ماہر چال باز کی چابک دست تحریر۔عموماََ خط کی ابتداء یوں کی جاتی کہ آپ حیران ہونگے کہ یہ کون آپ سے مخاطب ہے، میں آپ کیلئے اجنبی ہوں لیکن یقین جانئے کہ بہت چھان بین کے بعد میں نے آپ کا پتہ حاصل کیا خدارا انکار نہ کیجئے دنیا میں میرا کوئی نہیں اور مجھے آپ کی شخصیت نے اتنا متاثر کیا کہ میں آپ پر پورا اطمینان کر سکتی ہوں۔آج کل آنے والے خطوط عموماََ بسم اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور نام بھی بلکل برصغیر کے مسلمانوں جیسے۔بعض خطوط میں لکھا جاتاہے کہ میرے شوہر تو گزرگئے اور میرے طبیب نے مجھے بھی کینسر یا اسی قبیل کی کسی بیماری کی تشخیص کی ہے اب میں زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی اسلئے یہ رقم آپ کے سپرد کرکے چین سے مرنا چاہتی ہوں۔ان خطوط کے پیچھے پوشیدہ چال بازیوں کا بعض لوگ شکار بھی ہوئے ان سے کہا گیا کہ آپ کی رقم ہم آپ کو براہ راست دینا چاہتے ہیں اسلئے فلاں ملک تشریف لائیے اور اپنی دولت سمیٹ لے جائیے۔چنانچہ بعض لوگ سفر کرکے ان ملکوں کو گئے اور ظاہر ہے جب کوئی بیرون کا سفر کرتا ہے تو اپنے ساتھ مناسب اخراجات بھی ساتھ لے جاتا ہے اور بنک کارڈس بھی۔وہاں جانے پر انہیں لوٹ لیا گیا اور روتے پیٹنے لوٹ کے بدھو گھرکو آئے۔یا بینگ اکاؤنٹ کی تفصیلات دینے والوں کو ہیکرز کے ذریعے پاس ورڈ معلوم کرکے انکی ساری جمع پونججی نکال لی گئی۔اس میں ایمیل بھیجنے والوں کا دھیلا بھی خرچ نہ ہوا اور بھروسہ کرنے والے نادانوں کو خسارے برداشت کرنے پڑے۔پتہ چلا ہے کہ افریقی ممالک میں ایک پورا نٹ ورک ہے جو ریسرچ کرکے لوگوں کے احوال انکے مزاجوں کے مطابق ایمیل لکھواتا ہے اور انہیں بھیج کر جال میں پھانسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کاش ان میں ایک خط بھی سچ ہوتا تومیں آج دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا۔ لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ ۔۔۔۔کیاش ہوتا ابھی خط آنے بند نہیں ہوئے ہیں اسلئے اگراور جیتے رہے تو کسی سچے خط کا انتظار کرنے کو جی چاہتاہے۔
مہتاب قدر
غالب آج زندہ ہوتے تو بعداز مرگ انکے گھر سے چند نہیں بہت زیادہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط نکلتے کیونکہ دنیا بھر کے شعراء ادبا کی طرح بچتے بچاتے بھی غالب فیس بک پرآہی جاتے کہ آج کے دور میں اس سے بھاگنا ممکن نہ رہاجب فیس بک پر آتے تو پھر۔۔۔ نہ جانے کیسی کیسی تصویروں سے اور کیا کیا اور کون کون سے ناموں سے غالب کو تنگ کیا جا تا۔اور غالب پھر غالباََ یوں کہتے ،
چند تشہیری بیاں، چند کمینوں کے خطوط
میں نے ایمیل جو کھولا تو یہ ساماں نکلا
خیر فیس بک پر تو پھر بھی کسی قدر آپ اپنے مخاطب کو جھوٹے یا سچے پروفائل سے پہچان سکتے ہیں یا پہچاننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔مگرایمیل
کے ذریعے جو خطوط ہمیں ملتے ہیں یا ہوسکتا ہے بہت سے احباب کو
ملتے ہوں انکا انداز بیاں اور مشمولات اتنے ماہرانہ دلکش اور دلپذیر ہوتے ہیں کہ اگرآپ کے سینے میں دل ہو اور اوپر کا خانہ قدرے کمزور ہو توآپ کا انکے عشق میں مبتلا ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ان خطوط کی چند خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ برِاعظم افریقہ سے تعلق رکھتے ہوں،چاہے ایمیل ارسال کرنے والا اپنا تعلق کبھی لندن سے بتائے کبھی امریکہ یورپ سے مگراس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جاکر افریقہ سے مل جاتے ہیں۔ہمارے ان محبان کی نظرعالمی سیاست پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ جب کہیں کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے یا کسی ہوائی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے تو ہمیں فوراََ ایمیل ملتا ہے کہ وہ جو معزول سیاست دان ہیںیا اس ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے دنیا کے فلاں متمول شخص ہیں،جس حادثہ کی اطلاع بی بی سی نے فلاں دن حسب ذیل لنک پر دی ہے، میں انکی بیٹی یا بیوی ہوں موصوف نے میرے نام لاکھوں کروڑوں کی رقم بنک میں جمع کروا رکھی ہے مگر میرے بدخواہ مجھے اس سے استفادہ نہیں کرنے دیتے اسلئے میں یہ رقم آپ کے نام ٹرانسفر کرنا چاہتی ہوں مجھے آپ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے اسلئے آپ اپنا مکمل پتہ اور بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات فوراََ بھیج دیں۔پہلے پہل جو ایمیل ہمیں ملتے رہے ان میں پچیس سے تیس برس کی دوشیزائیں اور بیواؤں کے خطوط زیادہ ہوتے تھے ،جس میں خطوط کے ساتھ انکی ایک عدد تصویر بھی چسپاں ہوتی مگرجب کسی ایمیل کا جواب نہ دیا گیا تو پینترابدل دیا گیا اور پھراللہ رسول کے واسطے سے باتیں ہونے لگیں اب شادی کے پروپوزل نہیں ملتے بلکہ یوں لکھا جاتا کہ اتنی ساری رقم میں کیا کروں ،آپ چاہیں تو اسے کسی خیراتی ادارے میں جمع کروادیں تاکہ آخرت میں اس کا اجرآپ کو اور مجھے ملتا رہے ورنہ یہ میرے رشتہ دار سب ہضم کرجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔یہ خطوط کبھی کبھی ان مشہورِ زماں ہستیوں کے اٹارنیوں کی جانب سے بھی ملتے ہیں کہ فلاں فلاں نے آپ سے رابطہ کرکے انکی جملہ پونجی آپ کے نام بنک میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے،آپ جلداپنے بنک اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔کبھی بزنس پرپوزل بھی ملتے ہیں کہ میرے پاس اتنی رقم ہے ،میں آپ کے ساتھ تجارت میں لگانا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں،مجھے اللہ کے بعد آپ پر پورا بھروسہ ہے۔کبھی سوچتا ہوں یہ ایمیل فلکی صاحب کو فارورڈ کردوں کہ وہ فینانس کے معاملے میں اچھے مشیر ثابت ہو سکتے ہیں،خیر۔زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایمیل اتنے خوبصورت کہ گویا کوئی تخیلاتی سطح پر لکھا گیا افسانہ ہو یا کسی ماہر چال باز کی چابک دست تحریر۔عموماََ خط کی ابتداء یوں کی جاتی کہ آپ حیران ہونگے کہ یہ کون آپ سے مخاطب ہے، میں آپ کیلئے اجنبی ہوں لیکن یقین جانئے کہ بہت چھان بین کے بعد میں نے آپ کا پتہ حاصل کیا خدارا انکار نہ کیجئے دنیا میں میرا کوئی نہیں اور مجھے آپ کی شخصیت نے اتنا متاثر کیا کہ میں آپ پر پورا اطمینان کر سکتی ہوں۔آج کل آنے والے خطوط عموماََ بسم اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور نام بھی بلکل برصغیر کے مسلمانوں جیسے۔بعض خطوط میں لکھا جاتاہے کہ میرے شوہر تو گزرگئے اور میرے طبیب نے مجھے بھی کینسر یا اسی قبیل کی کسی بیماری کی تشخیص کی ہے اب میں زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی اسلئے یہ رقم آپ کے سپرد کرکے چین سے مرنا چاہتی ہوں۔ان خطوط کے پیچھے پوشیدہ چال بازیوں کا بعض لوگ شکار بھی ہوئے ان سے کہا گیا کہ آپ کی رقم ہم آپ کو براہ راست دینا چاہتے ہیں اسلئے فلاں ملک تشریف لائیے اور اپنی دولت سمیٹ لے جائیے۔چنانچہ بعض لوگ سفر کرکے ان ملکوں کو گئے اور ظاہر ہے جب کوئی بیرون کا سفر کرتا ہے تو اپنے ساتھ مناسب اخراجات بھی ساتھ لے جاتا ہے اور بنک کارڈس بھی۔وہاں جانے پر انہیں لوٹ لیا گیا اور روتے پیٹنے لوٹ کے بدھو گھرکو آئے۔یا بینگ اکاؤنٹ کی تفصیلات دینے والوں کو ہیکرز کے ذریعے پاس ورڈ معلوم کرکے انکی ساری جمع پونججی نکال لی گئی۔اس میں ایمیل بھیجنے والوں کا دھیلا بھی خرچ نہ ہوا اور بھروسہ کرنے والے نادانوں کو خسارے برداشت کرنے پڑے۔پتہ چلا ہے کہ افریقی ممالک میں ایک پورا نٹ ورک ہے جو ریسرچ کرکے لوگوں کے احوال انکے مزاجوں کے مطابق ایمیل لکھواتا ہے اور انہیں بھیج کر جال میں پھانسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کاش ان میں ایک خط بھی سچ ہوتا تومیں آج دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا۔ لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ ۔۔۔۔کیاش ہوتا ابھی خط آنے بند نہیں ہوئے ہیں اسلئے اگراور جیتے رہے تو کسی سچے خط کا انتظار کرنے کو جی چاہتاہے۔
No comments:
Post a Comment