Friday, February 8, 2019

پیروڈیاں

 ایک پیروڈی  
’’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘
بیوی اک خواب ہے شادی شدہ افسانے کا

 کہنے والوں کے نام ایک شعر very nice  غزل پڑھ کر یا سن کر
ہر حرف کو لپیٹ کے خوشبو میں داد دو
اردو کی شاعری ہو تو اردو میں داد دو


پیاز کی پتّی سے کٹ سکتا ہے کولیسٹرول مگر

انڈے کی زردی ملانے سےیہ ہو گا بےاثر


میاں کو کیا خبردونوں میں کیا کیا آتا جاتا ہے

پڑوسن سے پڑوسن کو دریچے جوڑ رکھتے ہیں
پیروڈی ساحر کے ایک شعر کی
میں جسے ’داد‘ کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تکلم وہ تبسم تری عادت ہی نہ ہو

یہ دستور دلآزاری ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو داد لینے کو ترستی ہے غزل میری

محفل میں ایک بچے کو دیکھ کر
نہ جامے میں ہے وہ اپنے نہ اس پر کوئی جامہ ہے
یہ کس کا کارنامہ ہے ، یہ کس کا کارنامہ ہے


Sunday, November 17, 2013

دکنی نظم میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا


مہتاب قدر

میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا
 کیوں اپنا پٹارا کھولا تھا
 ہاں عمر کا انکی  اندازہ
     چالیس تلک بھی سولا تھا
بارش میں بھگے تو راز کھلا
ماشہ وہ نہیں تھا تولا تھا
میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا

کب امّاں کو اماں سمجھے تھے
 کب باوا کو باوابولے تھے
دنیامیں میں انہی کی اک جورو
بس حور پری ہے سوچے تھے
اب بیٹا غٹرغوں کرتاہے
اور منہ پہ اکڑفوں کرتا ہے
تب کائیکو دکھوں کے یہ تڑکاں
میں پہلے کا پہلیج بولا تھا

آزاد ویزا کے چکر میں
مت آو کہا تھا سالوں کو
آتی ہے سمجھ میں جلدی کب
ہر بات یہ مستی پالوں کو
اب آ کو یہاں پر پھنس گئیں ناں
میں پہلے کا پہلیج بولا تھا

نکو یہ گلابی لاڑاں بھی
مہتاب ٹپیکل باتاں بھی
کیوں چھوڑ کے اپنے لہجے کو
تم شعر سناریں گا گا کو
کچھ داد ملی نہ ریّالاں،
اب تھی سوبھی عزت جاری ناں
تم بات کسی کی سنتیں کاں
،میں پہلے کا پہلیچ بولا تھا

Sunday, August 18, 2013

اب مشاعرے یوں ہونے لگے



اب مشاعرے یوں ہونے لگے

مہتاب قدر



مشاعرے جو کبھی تہذیب گاہ ہوا کرتے تھے وقت اور حالات کے ساتھ اپنی اصل ہیئت
کھوتے جارہے ہیں۔عالمی مشاعروں کا ایسا رواج بڑھا کے اب ہندوستان و پاکستان کے
علاوہ یورپ امریکہ اور خلیجی ملکوں میں عالمی مشاعرے اور آے دن ایوارڈز کی
تقسیم ہمارے آج کے شعراٗ کی ہمت افزائی کے علاوہ ان کے ذرایع آمدنی کا بھی
اچھا خاصا سبب بن گئی ہے،خیر! اس میں کوئی برائی بھی نہیں
۔



ایک بین الاقوامی شاعر نے جوکئی برس پہلے مشاعرہ پڑھنے جدہ تشریف لائے تھے ،ان
کی عارضی قیامگاہ پر ہماری ملاقات کے دوران جب مشاعروں میں ہونے والی نو
ٹونکیوں کا ذکر آیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ اب مشاعرے ہماری تہذیب کی علامت
نہیں رہے بلکہ تہذیب کا جشن بن گئے ہیں ، یہاں موصوف نے ’’تکلف‘‘ سے کا م لیا
ورنہ ہمارے تجربے اور مشاہدے میں تو مشاعرے بدتہذیبی کا موثر اظہار بن گئے
ہیں۔مشاعروں میں بڑے اور چھوٹے کا معیار شاعری کی قد وقامت سے نہیں بلکہ شاعر
کی شہرت اور اس کے ترنم یا چیخ پکار کی مہارت سے ناپا جانے لگاہے۔اداکاری اور
بھیک منگا پن شاعری پر غالب آگئے ہیں جو فنکار اِس فن سے واقف نہیں وہ عالمی
مشاعروں کا کامیاب شاعر نہیں بن سکتا۔ "حضرات دعاؤں سے نواز دی جیئے" ، کوئی
کہتا ہے" آپ کو اپنے بچوں کی قسم داد دیتے جائیے "۔ کوئی چیخ چیخ کر آسما ن
سرپر اُٹھا لیتا ہے اور یہ کہہ کر سامعین کی سماعتوں کی توہین کیے جا رہا ہے،
کہ " داد دیجئے شعر گھر جاکر سمجھ لینا "۔۔۔واہ واہ سامعین کے دل گردے کی داد
دینی پڑتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں جو انکے ذوقِ سماعت کا
اس طرح انکے منہ پر مذاق اُڑاتے ہیں۔
حضرات ! غزل اپنے دامن میں بڑی وسعت رکھتی ہے اب غزل صرف محبوب سے بات کرنے کا
نام نہ رہی بلکہ زندگی کے تمام معاشرتی ، سماجی اور سیاسی مسائل نے اس میں سج
کرغزل کو دھنک رنگ بنا دیا ہے ا اور یہی غزل کی زندگی اور آفاقیت کی علامت ہے
مگر بعض شعرا ء نے ماں کے تقدس کو استعمال کرکے داد بٹورنے کا ذریعہ بنایا ،
چاہے انہوں نے اپنی ماؤں کے ساتھ جیسا بھی رویّہ برتا ہو ،ہر شاعر ماں پر شعر
سناے بغیر نہیں رہتا اُسے معلوم ہے کہ کسی شعر پر داد ملے نہ ملے اس موضوع پر
ضرور ملے گی،غزل میں وہ ماں کاذکر ایسے متاثر کن انداز میں کرتا ہے کہ لوگ داد
دینے پر مجبور ہو جائیں۔ سیاسی اورسماجی موضوعات پر عام سامع کے جذبات سے
کھیلنے والے یہ شاعر اپنی آئیندہ مشاعروں کی دعوت کی ضمانت پکی کر جاتے ہیں
جنہیں بھولی بھالی عوام جو مشاعروں میں اپنا وقت گزا رنے اور تفریح کرنے آتی
ہے داد و تحسین بلکہ تالیوں سے جو مشاعروں کی تہذیب کے مغائر ہے نوازتی رہتی
ہے۔یقیناًایسے سامعین کی تعداد مشاعروں میں اچھی خاصی ہوتی ہے جنہیں مشاعروں
کی روایات کا علم نہیں یا وہ داد دینے کے ڈھنگ سے واقف نہیں ہوتے ،یہ نام نہاد
بڑے شعراء نازک اور حساس قومی اور مذہبی موضوعات پر بڑی چابک دستی اور چالاکی
سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایسے شعر سنا تے ہیں کہ سیدھے سادے سامعین کے جذبات
اور احساسات میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہو جائے اور انہیں بار بار
شعرپڑھنے کی دعوت دی جاتی رہے۔
حالیہ مشاہدے کے مطابق ایک ستر سالہ بڑے شاعر نے جو نظامت بھی فرماتے ہیں بلکہ
فرمارہے تھے ،اپنے لباس اور نازو انداز سے جواں سال نظرآنے والی شاعر ہ کو
مخاطب کرکے فرمایا ، تیری آنکھوں میں اُترنا چاہتا ہوں ۔۔۔اب میں حد سے گزرنا
چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔(انہی الفاظ پر مشتمل شعر تھا جو مجھے کوفت کے باعث یاد نہ
رہا)، اگروہ براہ راست شاعرہ سے مخاطب نہ ہوتے یا اس کا ذکر نہ کرتے کہ یہ
میری دوست ہیں یہ شعر انکی نذر کر رہا ہوں تو شاید شعر سنے جا سکتے تھے مگر
ایسا نہیں تھا مخاطب کا تعین کرکے ایسا کہنا۔۔ اُف!! خواتین کی موجود گی میں
اتنی بدتمیزی شاید اپنے ملکوں میں روا رکھی جاتی ہو مگر ان شہروں میں لوگ اپنی
گھروالیوں اور بیٹیوں کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں، ان کے احساسات پر
کیا گزرتی ہوگی اور ایک شاعر کا کیا تصور ان کے ذہنوں میں جگہ لیتا ہوگا جبکہ
انہیں ایک جواں سال نہیں عمر رسیدہ شاعر سے یہ کلمات سننے کو ملتے ہوں۔ابھی گل
و بلبل اور لب و رخسار کی روایتی شاعری نے دم نہیں توڑااب بھی ہماری روایات
زندہ ہیں، مگر بولنے کے بھی انداز ہوتے ہیں ، کب ،کہاں اور کیسے بولا جائے اس
کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ خصوصا جن مشاعروں میں خواتین شریک ہوں جہاں ہماری
بیٹیاں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان ڈھونڈنے آجائیں اگر وہاں بھی فلمی انداز کے
مکالمے ہوں تو انہیں مشاعروں میں آنے کے بجائے ایک ویڈیو یا "ہا و ہو " والے
چینل پر کچھ دیکھ لینے میں کیا قباحت نظر آسکتی ہے۔ گروپ بندیوں کا شکار یہ
ناظمینِ مشاعرہ صرف اپنے گروپ کے شاعر کا تعارف خوب ڈھنگ سے کرواتے ہیں اور
دیگر شعرا کو ایسے بلاتے ہیں جیسے جانتے تک نہ ہوں۔ ہمارے دیس میں باصلاحیت
شعراء اور اچھے ناظموں کی کمی نہیں مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ ہماری مشاعرہ
کمیٹیوں میں ایسے لوگ زیادہ اثر رکھتے ہیں جنہیں شعرا کی پرکھ نہیں یا شعری
مذاق سے انکا کوئی علاقہ نہیں۔شعراء کے انتخاب نے رسوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ، دیکھا
گیا ہے کہ ناظمِ مشاعرہ بار بار منتظمین کا تعار ف ایسے کرواتا ہے جیسے سامعین
کی سماعتوں پر اس کو بھروسہ نہ ہو شاید اسی لئے ہر پندرہ منٹ بعد اعلان ہوتا
ہے کہ اس مشاعرے کی صدارت فلاں فرمارہے ہیں ا ور مہمانِ خصوصی فلاں ہیں اور
مشاعرہ کو فلا ں فلاں صاحبان نے منعقد کیا ہے۔
متشاعروں اور متشاعرات کا تو ذکر ہی کیا کہ ہمارے بعض اساتذہ کے سبب انکا یہ
بازارِ بدتمیزی چمک پڑا ہے، غلطی اساتذہ کی نہیں منتظمین کی ہے جنہوں نے ان
اساتذہ کا حق مار کر متشاعرات کو مشاعروں کی سیج پر سجایا مجبوراََ ان اساتذہ
کو اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے خوش گلو جوان بچے اور خوبصورت یا قبول صورت مترنم
بچیوں کو پالنا پڑا ، تربیت دینی پڑی اور وہی اساتذہ اپنے تلامذہ کے سبب
مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔
نئے شعرا کو بلا کر تجربے کئے جا سکتے ہیں مگر تجربہ کرنے والے بھی شعراء ہونے
چاہیے۔جیسے دین میں اجتہاد کوئی حافظ وقاری نہیں فقیہ کرتا ہے، اسی طرح
مشاعروں کے معاملات میں بھی مقامی اور دیگر تجربہ کارشعراء سے مشورے لینا اور
انہیں اپنے ساتھ شامل رکھنا آئندہ مشاعروں کے معیار کو بڑھانے اور شعری اور
ادبی خدمت کا حق ادا کرنے کے لئے اتناہی ناگزیر ہے جتنا گاڑی میں ڈالنے کیلئے
صحیح ایندھن کا انتخاب

آپ کی تعریف




’’ آپ کی تعریف؟‘‘
گزشتہ تحریر ’’میَں‘‘ میں نے اپنے تعارف میں پیش کی تھی ،مگر مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ’’میں ‘‘ مقبولِ عام لفظ ہونے کے باوصف معتوب کیوں ہے، ہمارے معاشرے میں کوئی دوسروں کی ’’میں‘‘ سننے کو تیار نہیں ہر آدمی اپنی ہی ’’میں ‘‘ میں مگن ہے۔کسی سے اُس کی شخصیت کے بارے میں پوچھ کر دیکھئے کہ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟، یعنی ’ اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ‘کے مصداق آپ کواتنی ’’میں میں‘‘ سننے کو ملے گی کہ آپ کی سماعتیں اُکتا جائیں ۔ایسا نہیں کہ ’’میں ‘‘ میں کوئی برائی ہے ،بعض اوقات یہی ’’میں‘‘ بہت اچھا لگتا ہے اور قدر کی نگاہ سے(قدرسے مراد مہتاب قدر کی نگاہ ہر گز نہیں کیوں کہ ہمیں بعض اوقات خوبصورت چیزیں معمولی اور معمولی بھی غیرمعمولی اور خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جن کی وجوہات کا تعلق کیفیاتی ہوتاہے اور کیفیات وقتی ہوتے ہیں) ، دیکھا جاتا ہے مثلاََ جب کوئی کہتا ہے ،’’میں معذرت خواہ ہوں‘‘ یاکوئی یوں کہے کہ’’ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے غلطی کی ہے‘‘ وغیرہ۔۔(ایک ہی ’وغیر ‘ہ پر اکتفاکر رہا ہوں زیادہ کی گنجائش نہیں کہ ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں)۔سنتے ہیں کہ ’’میں میں‘‘ کی کثرت بکروں اور بکریوں کو قصائی تک پہنچادیتی ہے ،پھر بھی بکریاں ’’میں میں‘‘ کرنا نہیں چھوڑتیں،کیاکِیا جائے کہ وہ فطرت سے مجبور ہوتی ہیں مگر ہم تو فطری طورپر ’’میں میں ‘‘ کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
’’لگتا ہے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے‘‘ ،یہ جملہ زندگی میں کئی بار سننے اور بولنے کے مواقع تقریباََ ہر کس و ناکس کو میسّر آتے ہیں۔ایک بزرگ کو دیکھ کر ہمیں ایسا ہی لگا تھاجو گیسوکی طرح نرم و سیاہ فام اور خال ِ رُخ ِ ایّام کی صورت ہمارے سامنے تھے ۔جوں ہی ہم نے اُن سے یہ روایتی جملہ کہا ’’شائد آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ‘‘ موصوف کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور جواب ملا ’’خواب میں دیکھا ہوگا‘‘ شریف آدمی تھے اسی لئے جوش ملیح آبادی کی طرح جواب نہیں دیا کہ’’ بارہ برس کی عمر میں دیکھا ہوگا۔‘‘ ہم نے بھی خلاف عادت شراف کا ثبوت دیا یعنی انکی عمراور شخصیت کے رعب میں بلکہ خوف میں مبتلاہوتے ہوئے صبر کے گھونٹ پی گئے حالانکہ زبان پر الفاظ تیرکی طرح کسمساتے ہوئے کمان چھوڑنے کو تیار تھے کہ کہہ دیں ہم اتنے ڈراؤنی خواب نہیں دیکھتے ۔ ۔
تعریف اور تعارف کا ’’چولی دامن کا ساتھ ہے‘‘ چولی دامن کا ساتھ کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا کہ چولی سے صرف تانیث کا اِشارہ ملتا ہے اور دامن تینوں اصناف میں کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ ، اسی لئے چولی کو چھوڑ کر صرف دامن بچاتے ہوے اگر’’ کرتا پیجامے کا ساتھ ہے ‘‘ کہا جائے تو کیا بُرا ہے۔ بہرحال تعارف میں تعریف ہی کی جاتی ہے برے اوصاف نہیں گنائے جاتے اسی سبب ہمارے ایک دوست نے ہمارا تحریر کردہ ایک تعارفی مضمون پڑھ کر ستائشی کلمات یوں لکھے کہ آپ نے تعارف کے پُل باندھ دئیے بلکہ’’ برج خلیفہ‘‘ کھڑا کر دیا ۔ دراصل ہم نے تعارفی مضمون ’’ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘ کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے شاعر دوست کے لئے لکھا اورچراغ میں اپنے حصّے کا تیل ڈال آئے اب انکی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہاتھ دکھائیے


کمرشیل شعرا اور عالمی مشاعرے