Sunday, August 18, 2013

اب مشاعرے یوں ہونے لگے



اب مشاعرے یوں ہونے لگے

مہتاب قدر



مشاعرے جو کبھی تہذیب گاہ ہوا کرتے تھے وقت اور حالات کے ساتھ اپنی اصل ہیئت
کھوتے جارہے ہیں۔عالمی مشاعروں کا ایسا رواج بڑھا کے اب ہندوستان و پاکستان کے
علاوہ یورپ امریکہ اور خلیجی ملکوں میں عالمی مشاعرے اور آے دن ایوارڈز کی
تقسیم ہمارے آج کے شعراٗ کی ہمت افزائی کے علاوہ ان کے ذرایع آمدنی کا بھی
اچھا خاصا سبب بن گئی ہے،خیر! اس میں کوئی برائی بھی نہیں
۔



ایک بین الاقوامی شاعر نے جوکئی برس پہلے مشاعرہ پڑھنے جدہ تشریف لائے تھے ،ان
کی عارضی قیامگاہ پر ہماری ملاقات کے دوران جب مشاعروں میں ہونے والی نو
ٹونکیوں کا ذکر آیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ اب مشاعرے ہماری تہذیب کی علامت
نہیں رہے بلکہ تہذیب کا جشن بن گئے ہیں ، یہاں موصوف نے ’’تکلف‘‘ سے کا م لیا
ورنہ ہمارے تجربے اور مشاہدے میں تو مشاعرے بدتہذیبی کا موثر اظہار بن گئے
ہیں۔مشاعروں میں بڑے اور چھوٹے کا معیار شاعری کی قد وقامت سے نہیں بلکہ شاعر
کی شہرت اور اس کے ترنم یا چیخ پکار کی مہارت سے ناپا جانے لگاہے۔اداکاری اور
بھیک منگا پن شاعری پر غالب آگئے ہیں جو فنکار اِس فن سے واقف نہیں وہ عالمی
مشاعروں کا کامیاب شاعر نہیں بن سکتا۔ "حضرات دعاؤں سے نواز دی جیئے" ، کوئی
کہتا ہے" آپ کو اپنے بچوں کی قسم داد دیتے جائیے "۔ کوئی چیخ چیخ کر آسما ن
سرپر اُٹھا لیتا ہے اور یہ کہہ کر سامعین کی سماعتوں کی توہین کیے جا رہا ہے،
کہ " داد دیجئے شعر گھر جاکر سمجھ لینا "۔۔۔واہ واہ سامعین کے دل گردے کی داد
دینی پڑتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں جو انکے ذوقِ سماعت کا
اس طرح انکے منہ پر مذاق اُڑاتے ہیں۔
حضرات ! غزل اپنے دامن میں بڑی وسعت رکھتی ہے اب غزل صرف محبوب سے بات کرنے کا
نام نہ رہی بلکہ زندگی کے تمام معاشرتی ، سماجی اور سیاسی مسائل نے اس میں سج
کرغزل کو دھنک رنگ بنا دیا ہے ا اور یہی غزل کی زندگی اور آفاقیت کی علامت ہے
مگر بعض شعرا ء نے ماں کے تقدس کو استعمال کرکے داد بٹورنے کا ذریعہ بنایا ،
چاہے انہوں نے اپنی ماؤں کے ساتھ جیسا بھی رویّہ برتا ہو ،ہر شاعر ماں پر شعر
سناے بغیر نہیں رہتا اُسے معلوم ہے کہ کسی شعر پر داد ملے نہ ملے اس موضوع پر
ضرور ملے گی،غزل میں وہ ماں کاذکر ایسے متاثر کن انداز میں کرتا ہے کہ لوگ داد
دینے پر مجبور ہو جائیں۔ سیاسی اورسماجی موضوعات پر عام سامع کے جذبات سے
کھیلنے والے یہ شاعر اپنی آئیندہ مشاعروں کی دعوت کی ضمانت پکی کر جاتے ہیں
جنہیں بھولی بھالی عوام جو مشاعروں میں اپنا وقت گزا رنے اور تفریح کرنے آتی
ہے داد و تحسین بلکہ تالیوں سے جو مشاعروں کی تہذیب کے مغائر ہے نوازتی رہتی
ہے۔یقیناًایسے سامعین کی تعداد مشاعروں میں اچھی خاصی ہوتی ہے جنہیں مشاعروں
کی روایات کا علم نہیں یا وہ داد دینے کے ڈھنگ سے واقف نہیں ہوتے ،یہ نام نہاد
بڑے شعراء نازک اور حساس قومی اور مذہبی موضوعات پر بڑی چابک دستی اور چالاکی
سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایسے شعر سنا تے ہیں کہ سیدھے سادے سامعین کے جذبات
اور احساسات میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہو جائے اور انہیں بار بار
شعرپڑھنے کی دعوت دی جاتی رہے۔
حالیہ مشاہدے کے مطابق ایک ستر سالہ بڑے شاعر نے جو نظامت بھی فرماتے ہیں بلکہ
فرمارہے تھے ،اپنے لباس اور نازو انداز سے جواں سال نظرآنے والی شاعر ہ کو
مخاطب کرکے فرمایا ، تیری آنکھوں میں اُترنا چاہتا ہوں ۔۔۔اب میں حد سے گزرنا
چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔(انہی الفاظ پر مشتمل شعر تھا جو مجھے کوفت کے باعث یاد نہ
رہا)، اگروہ براہ راست شاعرہ سے مخاطب نہ ہوتے یا اس کا ذکر نہ کرتے کہ یہ
میری دوست ہیں یہ شعر انکی نذر کر رہا ہوں تو شاید شعر سنے جا سکتے تھے مگر
ایسا نہیں تھا مخاطب کا تعین کرکے ایسا کہنا۔۔ اُف!! خواتین کی موجود گی میں
اتنی بدتمیزی شاید اپنے ملکوں میں روا رکھی جاتی ہو مگر ان شہروں میں لوگ اپنی
گھروالیوں اور بیٹیوں کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں، ان کے احساسات پر
کیا گزرتی ہوگی اور ایک شاعر کا کیا تصور ان کے ذہنوں میں جگہ لیتا ہوگا جبکہ
انہیں ایک جواں سال نہیں عمر رسیدہ شاعر سے یہ کلمات سننے کو ملتے ہوں۔ابھی گل
و بلبل اور لب و رخسار کی روایتی شاعری نے دم نہیں توڑااب بھی ہماری روایات
زندہ ہیں، مگر بولنے کے بھی انداز ہوتے ہیں ، کب ،کہاں اور کیسے بولا جائے اس
کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ خصوصا جن مشاعروں میں خواتین شریک ہوں جہاں ہماری
بیٹیاں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان ڈھونڈنے آجائیں اگر وہاں بھی فلمی انداز کے
مکالمے ہوں تو انہیں مشاعروں میں آنے کے بجائے ایک ویڈیو یا "ہا و ہو " والے
چینل پر کچھ دیکھ لینے میں کیا قباحت نظر آسکتی ہے۔ گروپ بندیوں کا شکار یہ
ناظمینِ مشاعرہ صرف اپنے گروپ کے شاعر کا تعارف خوب ڈھنگ سے کرواتے ہیں اور
دیگر شعرا کو ایسے بلاتے ہیں جیسے جانتے تک نہ ہوں۔ ہمارے دیس میں باصلاحیت
شعراء اور اچھے ناظموں کی کمی نہیں مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ ہماری مشاعرہ
کمیٹیوں میں ایسے لوگ زیادہ اثر رکھتے ہیں جنہیں شعرا کی پرکھ نہیں یا شعری
مذاق سے انکا کوئی علاقہ نہیں۔شعراء کے انتخاب نے رسوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ، دیکھا
گیا ہے کہ ناظمِ مشاعرہ بار بار منتظمین کا تعار ف ایسے کرواتا ہے جیسے سامعین
کی سماعتوں پر اس کو بھروسہ نہ ہو شاید اسی لئے ہر پندرہ منٹ بعد اعلان ہوتا
ہے کہ اس مشاعرے کی صدارت فلاں فرمارہے ہیں ا ور مہمانِ خصوصی فلاں ہیں اور
مشاعرہ کو فلا ں فلاں صاحبان نے منعقد کیا ہے۔
متشاعروں اور متشاعرات کا تو ذکر ہی کیا کہ ہمارے بعض اساتذہ کے سبب انکا یہ
بازارِ بدتمیزی چمک پڑا ہے، غلطی اساتذہ کی نہیں منتظمین کی ہے جنہوں نے ان
اساتذہ کا حق مار کر متشاعرات کو مشاعروں کی سیج پر سجایا مجبوراََ ان اساتذہ
کو اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے خوش گلو جوان بچے اور خوبصورت یا قبول صورت مترنم
بچیوں کو پالنا پڑا ، تربیت دینی پڑی اور وہی اساتذہ اپنے تلامذہ کے سبب
مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔
نئے شعرا کو بلا کر تجربے کئے جا سکتے ہیں مگر تجربہ کرنے والے بھی شعراء ہونے
چاہیے۔جیسے دین میں اجتہاد کوئی حافظ وقاری نہیں فقیہ کرتا ہے، اسی طرح
مشاعروں کے معاملات میں بھی مقامی اور دیگر تجربہ کارشعراء سے مشورے لینا اور
انہیں اپنے ساتھ شامل رکھنا آئندہ مشاعروں کے معیار کو بڑھانے اور شعری اور
ادبی خدمت کا حق ادا کرنے کے لئے اتناہی ناگزیر ہے جتنا گاڑی میں ڈالنے کیلئے
صحیح ایندھن کا انتخاب

آپ کی تعریف




’’ آپ کی تعریف؟‘‘
گزشتہ تحریر ’’میَں‘‘ میں نے اپنے تعارف میں پیش کی تھی ،مگر مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ’’میں ‘‘ مقبولِ عام لفظ ہونے کے باوصف معتوب کیوں ہے، ہمارے معاشرے میں کوئی دوسروں کی ’’میں‘‘ سننے کو تیار نہیں ہر آدمی اپنی ہی ’’میں ‘‘ میں مگن ہے۔کسی سے اُس کی شخصیت کے بارے میں پوچھ کر دیکھئے کہ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟، یعنی ’ اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ‘کے مصداق آپ کواتنی ’’میں میں‘‘ سننے کو ملے گی کہ آپ کی سماعتیں اُکتا جائیں ۔ایسا نہیں کہ ’’میں ‘‘ میں کوئی برائی ہے ،بعض اوقات یہی ’’میں‘‘ بہت اچھا لگتا ہے اور قدر کی نگاہ سے(قدرسے مراد مہتاب قدر کی نگاہ ہر گز نہیں کیوں کہ ہمیں بعض اوقات خوبصورت چیزیں معمولی اور معمولی بھی غیرمعمولی اور خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جن کی وجوہات کا تعلق کیفیاتی ہوتاہے اور کیفیات وقتی ہوتے ہیں) ، دیکھا جاتا ہے مثلاََ جب کوئی کہتا ہے ،’’میں معذرت خواہ ہوں‘‘ یاکوئی یوں کہے کہ’’ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے غلطی کی ہے‘‘ وغیرہ۔۔(ایک ہی ’وغیر ‘ہ پر اکتفاکر رہا ہوں زیادہ کی گنجائش نہیں کہ ایسے مواقع کم ہی ملتے ہیں)۔سنتے ہیں کہ ’’میں میں‘‘ کی کثرت بکروں اور بکریوں کو قصائی تک پہنچادیتی ہے ،پھر بھی بکریاں ’’میں میں‘‘ کرنا نہیں چھوڑتیں،کیاکِیا جائے کہ وہ فطرت سے مجبور ہوتی ہیں مگر ہم تو فطری طورپر ’’میں میں ‘‘ کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
’’لگتا ہے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے‘‘ ،یہ جملہ زندگی میں کئی بار سننے اور بولنے کے مواقع تقریباََ ہر کس و ناکس کو میسّر آتے ہیں۔ایک بزرگ کو دیکھ کر ہمیں ایسا ہی لگا تھاجو گیسوکی طرح نرم و سیاہ فام اور خال ِ رُخ ِ ایّام کی صورت ہمارے سامنے تھے ۔جوں ہی ہم نے اُن سے یہ روایتی جملہ کہا ’’شائد آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ‘‘ موصوف کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور جواب ملا ’’خواب میں دیکھا ہوگا‘‘ شریف آدمی تھے اسی لئے جوش ملیح آبادی کی طرح جواب نہیں دیا کہ’’ بارہ برس کی عمر میں دیکھا ہوگا۔‘‘ ہم نے بھی خلاف عادت شراف کا ثبوت دیا یعنی انکی عمراور شخصیت کے رعب میں بلکہ خوف میں مبتلاہوتے ہوئے صبر کے گھونٹ پی گئے حالانکہ زبان پر الفاظ تیرکی طرح کسمساتے ہوئے کمان چھوڑنے کو تیار تھے کہ کہہ دیں ہم اتنے ڈراؤنی خواب نہیں دیکھتے ۔ ۔
تعریف اور تعارف کا ’’چولی دامن کا ساتھ ہے‘‘ چولی دامن کا ساتھ کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا کہ چولی سے صرف تانیث کا اِشارہ ملتا ہے اور دامن تینوں اصناف میں کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ ، اسی لئے چولی کو چھوڑ کر صرف دامن بچاتے ہوے اگر’’ کرتا پیجامے کا ساتھ ہے ‘‘ کہا جائے تو کیا بُرا ہے۔ بہرحال تعارف میں تعریف ہی کی جاتی ہے برے اوصاف نہیں گنائے جاتے اسی سبب ہمارے ایک دوست نے ہمارا تحریر کردہ ایک تعارفی مضمون پڑھ کر ستائشی کلمات یوں لکھے کہ آپ نے تعارف کے پُل باندھ دئیے بلکہ’’ برج خلیفہ‘‘ کھڑا کر دیا ۔ دراصل ہم نے تعارفی مضمون ’’ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘ کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے شاعر دوست کے لئے لکھا اورچراغ میں اپنے حصّے کا تیل ڈال آئے اب انکی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہاتھ دکھائیے


کمرشیل شعرا اور عالمی مشاعرے



Monday, August 5, 2013

پیام ِتہنیت آپ کے نام!


 

پیام  ِتہنیت آپ کے نام!

عیدالفطر ہر سال کی طرح اس سال بھی آئی ہے، برسہا برس سے  ہم ایک دوسرے کو عیدمبارک کے پیام دیتے  آئے  ہیں اور جب تک زندہ ہیں دیتے رہیں گے ،ایک دوسرے کو عید کے تہنیتی پیغامات کا لینا دینا ہمارے سماجی ڈھانچے کی ایک پرانی روایت ہےمذہب نے بھی اسے ایک خوشی کا موقع قرار دیا ہے  کیونکہ   ایک ماہ کی قیام و صیام کے بعد عید پر خوش ہونا روزہ داروں کا حق بھی ہے ۔اسلئے آج  آپ کے نام عید کا تہنیتی پیام تمام عالم کے مسلمانوں کی جانب سے جن میں دیوبندی ،بریلوی ، شیعہ سنی ہر طبقے کے کلمہ گو شامل ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔یہ پیغام ہے ابروئے یار کے نام بھی ،گیسوئے خمدار کے نام بھی ،چشم نیلی فام کے نام بھی ، عارض گلفام کے نام بھی ، عاشق ِ ناکام کے نام بھی   ۔واقعاتی شاعروں کے نام بھی حادثاتی ادیبوں کے نام بھی ۔ ہاں آپ سب کی خدمت میں جن میں بزم  کے اہل ِ علم و دانش بھی   شامل ہیں اور وہ بھی جو اپنے کو دانشور سمجھتے ہیں یا حکمت و دانش کی باتوں میں اپنی ٹانگ اڑاتے رہنا  اپنے علم کے اظہار کےلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔پختہ کار شعرا بھی اور نوآموز مشق سخن کرنے والے بھی میرے مخاطب ہیں اور وہ بھی جو افسانے اور کہانیاں لکھ لکھ کر اردو ادب کے قلمکار قافلے میں اپنے وجود کا احساس قائم رکھتے ہیں ۔سوشیل میڈیا فیس بک ،لنک ڈن ، سرکلز، نٹلاگ اور ٹویٹر کے وہ تمام اراکین جن سے میری گاہے گاہے کسی نہ کسی صورت ملاقات ہوتی ہے یا رابطے  میں رہتے ہیں۔ان میں واقعی موجود اورزندہ کردار بھی شامل ہیں اور فیک یا جعلی شناخت بنا کر اپنے اندر کی گندگیاں دوسروں پر ڈالنے والے کرم فرمابھی میرے پیام تہنیت کے مخاطب ہیں۔گوگل گروپس ، یاہو کمیونٹیز اور دیگر انجمنوں اور ویب سائٹس کے کرتادھرتا احباب تک بھی میں اپنا پیام تہنت پہنچانا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ پیام میرااپنا نہیں ہے یہ پیام تہنیت انکی جانب سے ہے جو مفلسی مفلوک الحالی اور غربت کے سبب عید کی خوسشیوں میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے انکے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکیں ۔یہ پیام عید ان مظلوم لڑکیوں کی  سسکتی آہ وبکا کی جانب سے بھی ہے جنکے سسرال والے انہیں عید کے موقع پر اپنے ماں باپ سے تک ملنے کی اجازت نہیں دیتے ،جنہیں جہیز جوڑے کی رقم کی طنزوطعن جینے کے بہانے بھی چھین لیتے ہیں ۔ان بوڑھے ماں باپ کی طرف سے بھی آپ تک یہ پیغام عید ہے جن کے پاس اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے سرمایہ نہیں ہے وہ منتطر ہیں کہ کوئی  بیمار ذہن اہل ثروت آئے اورجھوٹے وعدوں کے ذریعے  انکی نوخیز کلیوں کواپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انکے جینے کا سامان کرجائے، یہ عید مبارک انکی جانب سے بھی ہے جن کے بے قصور بچے کسی بھی سبب سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے  عید کے پرانے تصورات سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے ماں باپ کی دعاوں اور اپنےگھر جانے  کا انتظار کررہے ہیں۔یہ پیام تہنیت آے دن بم بلاسٹ میں مرنے والوں کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ وہ تو چلے گئے اس عالم ِ نفاق و منافرت سے ان کا حق تو وہ ادا کرتا ہے  جو کسی کا حق دباتا نہیں ہے بلکہ ہرایک کو اس کے کئے کی پوری پوری جزا دیتا ہے اور ظالم و مظلوم کے بیچ فیصلہ کرنے کا جس نے اعلان اس طرح کر رکھا ہے کہ اگر کوئی سینگ والی بکری نے دنیا بھی کسی بے سنیگ والی بکری کو سینگ مارا ہوگا تو اس کے حضور بے سینگ والی بکری کو سینگ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ ظلم کرنے والی بکری سے اپناحساب چکا لے، یہ پیام ِ عید آپ کے نام  ان زخم خردہ لوگوں کی جانب سے ہے جو بم بلاسٹ میں اپنے بریدہ جسموں کے سبب ہسپتالوں میں پڑے ہیں ،جن کے گھر میں عید منانے کو کچھ نہیں اور وہ اپنی جسمانی اذیتوں کے ساتھ ذہنی تکلیف میں بھی مبتلا کردئے گئے ہیں کہ صحتیاب ہوں تو کچھ کما سکیں۔ان بیبیوں کی جانب سے بھی جن کے شریک حیات پیسہ کمانے کی دھن میں انہیں وطن میں چھوڑ آئے ہیں وہ چاہتے ہوے بھی عید کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتیں نہ رسم دنیا نبھا سکتی ہیں نہ کوئی ازدواجی دستور سے مستفید ہو سکتی ہیں ۔

آپ سب گواہ رہنا کہ میں نے آپ تک ان تمام مظلوں کا پیام عید پہنچادیا ہے اگر فرصت ملے تو اپنی عید کے لمحات میں نہ سہی عید کے بعد ہی ان مسائل اور ان مجبوریوں اور مجبوروں کےلئے بساط بھر کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیجئے ،ارے نیت تو کرلیجئے کہ دینے والا داتا  نیتوں کے ساتھ اجر لکھوانا شروع کردیتاہے اور اگر کچھ کر سکے تو سونے پہ سہاگہ۔

 

                                                                             مہتاب قدر        

 

 

ہے کوئی غیرتمند!!